Saturday, August 1, 2015

پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام اور بین الاقوامی منظر نامہ

یہ تحریر اس سے پہلے نیوز لائن کراچی کے بلاگ میں شائع ہو چکی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ امریکہ کے زیر اہتمام ڈیلس میں ہونے والے تاریخی کنونشن کے موقع پر جب قائد تحریک کا ایک انتہائی اہم اور تاریخ ساز خطاب بھی متوقع ہے اس تحریر کی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک علیحدہ بلاگ کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ قاریئن سے درخواست ہے کہ اس پر اپنی آراء کا اظہار ضرور کریں۔
پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام اور بین الاقوامی تناظر
دنیا بھر کے ممالک میں حکومتی انتظام و انصرام کیلئے صوبے بنائے جاتے ہیں ۔ صوبوں کی تشکیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ریاست و حکومت کے انتظام میں سہولت پیدا کرکے عوام کی زندگی میں آسانی اور بہتری لائی جا سکے ۔ صوبے عموما آبادی کی مناسبت سے بنائے جاتے ہیں لیکن یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ آبادی کے یونٹ تعداد میں جتنے زیادہ اور حجم کے لحاظ سے کم ہونگے اتنا ہی انکا انتظام آسان ہوگا اوراتنا ہی عوام کیلئے بھی آسانیاں پیدا ہونگی۔ اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک نے اپنی جغرافیائی حدود میں ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ صوبے تشکیل دیئے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان ممالک میں انتظامی امورآسان تر ہوگئے ہیں اوراس کا منطقی نتیجہ وہاں کے عوام کی خوشحالی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
پاکستان ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے جو اپنے بہت بڑے رقبے کے بالمقابل صوبوں کی سب سے کم تعداد کا حامل ہے۔پاکستان رقبے کے لحاظ سے ایک سو چھیانوے ممالک میں چھتیسویں نمبر پر ہے اور یہاں چار صوبے ہیں جن میں سے ہر ایک کا حجم دنیا کے کئی ممالک کے حجم سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس سے محض ڈیڑھ گنا بڑے رقبے والا ملک پیرو 195 صوبوں کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ صوبوں والا ملک ہے ۔ اہم بات یہ کہ یہاں بھی پاکستان کی طرح بہت سے  نسلی ولسانی گروہ ہیں لیکن صوبوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں کسی قسم کی لسانی تفریق نہیں پائی جاتی۔  
زیر نظر تحریر میں دنیا کے مختلف ممالک میں صوبوں کی تعداد بیان کی گئی ہے تاکہ ایک مختصر تقابلی جائزہ لیا جا سکے  ۔
دنیا میں سب سے زیادہ صوبے جنوبی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک پیرو کے ہیں جن کی تعداد ایک سو پچانوے 195 ہے۔ پیرو کی کل آبادی 2014 میں 3 کروڑ 8 لاکھ سے کچھ زیادہ جبکہ اس کا رقبہ پاکستان کے رقبے سے تقریب دیڑھ گنا بڑا ہے پیرو کے پڑوسی ملک بولیویا کے صوبوں کی تعداد 112 ہے ۔ اٹلی ایک اہم یورپی ملک ہے جسکے صوبوں کی تعداد 110 ہے۔
اسی طرح فلپائن 82، ترکی 81، تھائی لینڈ 77، اومان 63، ویتنام 58 اور چلی کے 54 صوبے ہیں۔ یونان کے دوسری جنگ عظیم سے قبل 139 صوبے تھے جوجنگ کے بعد 147 ہوگئے۔ 2006 میں یونان میں صوبوں کا تصور ہی ختم کرکے انہیں میونسپلٹیز میں تبدیل کردیا گیا جو صوبوں سے چھوٹے یونٹ ہیں۔ اس وقت 13 پیریفیریز میں 54 صوبے کی طرح کے یونٹ قائم ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے تقسیم کے وقت نو صوبے تھے جبکہ اب یہاں 28 صوبے اور 7یونین ٹیریٹوریز ہیں۔
ایران کے 34 صوبے ہیں جبکہ 1950 تک ایران کے صوبوں کی تعداد 12 تھی۔ افغانستان میں 34 صوبے ہیں جو مزید ڈسٹرکٹ میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ چین میں صوبوں کی تعداد 23 ہے جبکہ 5 میونسپلٹیز، 5 خودمختار علاقے اور دو سپیشل انتظامی علاقے انکے علاوہ ہیں جن کو صوبے کا ہی اسٹیٹس ملا ہوا ہے۔
کینیڈا جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے تاہم آبادی میں ہم سے چوتھائی سے بھی کم ہے یہاں 10 صوبے اور تین ٹیریٹوریز ہیں۔ صوبے دستوری ایکٹ کے تحت جبکہ ٹیریٹوریز براہ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ کینیڈا کے پڑوس میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے جس کی 52 ریاستیں ہیں جبکہ برازیل 26 صوبوں پر مشتمل ہے۔
سویئزر لینڈ میں صوبوں کی تعداد اور صوبائی خودمختاری:
سویئزر لینڈ دنیا کا خوشحال ترین  اوربہت کم آبادی والا یورپی ملک ہے۔ اس کی آبادی کراچی کی آبادی کا ایک تہائی کے لگ بھگ ہے اور رقبہ سولہ ہزار مربع میل سے بھی کم ہے۔ سویئزر لینڈ میں 26 صوبے ہیں جو کینٹن کہلاتے ہیں۔ ہر کینٹن مکمل خود مختاری رکھتا ہے جس کا اپنا قانون، اپنی حکومت اور اپنی عدلیہ ہوتی ہے یہاں تک کہ ہر کینٹن کا اپنا آیئن بھی ہوتا ہے۔ سویئس وفاقی آیئن کینٹن کو اس حد تک خود مختاری دیتا ہے کہ یہ فیڈرل قوانین کی حدود سے بھی ماورا ہوتی ہے۔ ہر کینٹن صحت، عوامی فلاح، تعلیم اورنفاذ قانون کے علاوہ نئے ٹیکس لگانے اورٹیکس اکٹھے کرنے کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس بے مثال صوبائی خود مختاری نے اس ننھے سے ملک کو دنیا کا خوشحال ترین ملک بنا رکھا ہے۔
جاپان بھی دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں شامل ہے۔  پاکستان سے رقبے میں بہت کم ہونے کے باوجود یہاں 47 صوبے ہیں جوپری فیکچر کہلاتے ہیں۔1871 میں جاپان میں صوبوں کی تعداد 304 رہی ہے۔
فرانس میں 22 صوبے ہیں جبکہ جرمنی میں 16 صوبے ہیں۔ الجزائر 48، انگولا18، سعودی عربیہ 13، ارجنٹینا 23، آرمینیا 11، بیلاروس 7، بیلجیئم 10، بلغاریہ کے 28 اور کوسٹاریکا کے 7 صوبے ہیں۔
سب سے کم صوبوں والے ممالک:
سب سے کم صوبوں کے ساتھ تاجکستان پہلے نمبر پر ہے جس میں تین صوبے ہیں جبکہ پاکستان کا نمبر اس کے بعد آتا ہے جہاں چار صوبے ہیں ۔ تاہم یہ بھی محل نظر رہے کہ پاکستان کی آبادی تقریبا بیس کروڑ ہے جبکہ تاجکستان کی آبادی محض 80 لاکھ ہے جو کراچی کی آبادی کی تقریبا ایک تہائی ہے۔ ترکمانستان بھی کم صوبے رکھنے والے ممالک میں شمال ہے جہاں صرف 5 صوبے ہیں لیکن اس  ملک کی کل آبادی 52 لاکھ سے بھی کم ہے جو کراچی کی آبادی کا محض ایک چوتھائی ہے۔
اگر ان تمام ممالک کا پاکستان کے ساتھ معاشی، سماجی اور سیاسی حالات کے لحاظ سے موازنہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان ہوگا کہ صوبوں کی زیادہ تعداد ریاست کے انتظام و انصرام میں آسانی اور سہولت فراہم کرتی ہے جواپنے آخری نتیجے میں عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اگر وطن عزیز میں بھی صوبوں کی تعداد کو بڑھا دیا جائے تو یہ نہ تو کسی لسانی و نسلی گروہ کیلئےکسی نقصان کا باعث بنے گا بلکہ اسکے برعکس عوام کے تمام طبقات کیلئے خوشیوں اور خوشحالی کا سبب بھی بنے گا اور ساتھ ہی نسلی و لسانی اور گروہی تعصبات کا خاتمہ ہوگا اور عوام جو اس وقت ایک ہجوم کی حیثیت رکھتے ہیں ایک قوم بن جایئنگے۔